زیک پونن کی طرف سے انجیل کی سچائی اور جھو ٹ

Article Body: 

عیسائیت کی تقسیم دو حصوں میں مندرجہ ذیل ہے:

" Roman Catholics" and "Protestants"پیداش کے اعتبار سے

"Episcopal" (conformist) and "Free church" (non-conformist) چرچ کے اعتبار سے "Born again Christians" and "Nominal Christians" تجربے کے اعتبار سے

"Evangelicals" and "Liberals" نظریے کے اعتبار سےDoctrine

"Charismatics" and "Non-charismatics" زبانوں کے اعتبار سے

"Full-time Christian workers" and "Secular workers" پیشے کے اعتبار سے

اس طرح کے دیگر درجات بھی ہوسکتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی درجہ اُس مسلے کا حل نہیں بتاتا جسے مسیح یسوع سلجھانے آئے۔

ہم سب یہ تو جانتے ہیں کہ مسِیح ہمارے گُناہوں کے لِئے موُاء ۔ [۱ کُرنتھِیوں ۱۵۔۳] لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہمیں اب خود اپنے لئےنہیں بلکہ اُس کے لئے جینا چاہئے۔ [۲ کُرنتھِیوں ۵۔۱۵]

ایک بہتر روحانی اعتبار سے مسیحوں کے مندرجہ ذیل درجات ہو سکتے ہیں۔ وہ جو خود کے لئے جیتے ہیں اور وہ جو مسیح کے لئے جیتے ہیں۔ وہ جو اپنا فائدہ ڈھونڈتے ہیں اور وہ جو مسیح کی مرضی تلاش کرتے ہیں۔ وہ جو دنیاوی چیزوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور وہ جو خدا کی بادشاہی کی تلاش کرتے ہیں۔ وہ جو پیسے سے پیار کرتے ہیں اور وہ جو خدا سے پیار کرتے ہیں۔ یسوع نے کہا ہم پیسہ اور خدا دونوں سے ایک جیسی محبت نہیں رکھ سکتے۔ [لوقا ۱۶۔۱۳]

لیکن میں نے ایسا درجہ کہیں استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ جو مسیحوں کی روحانی زندگی اور اُنکی پوشیدہ زندگی بتائے۔جبکہ اُپر بیان کیے گئے درجات صرف مسیحی زندگی کی بیرونی تفصیلات بتاتے ہیں۔ آسمانی درجات وہ ہیں جو اُپر بتائے گئے جن سے پوشیدہ زندگی اثر انداز ہوتی ہے۔اور ان درجات کی تقسیم کوئی اور نہیں بلکہ ہمیں خود اپنے اندرکرنی ہوگی ۔ ہمارے علاوہ کوئی اور ہماری ذاتی زندگی سے باخبر نہیں ہو سکتا، ہماری بیوی یا شوہر بھی یہ نہیں جان سکتے کے ہماری اندرونی روحانی خواہش کیا ہے اور ہم کس کے لئے جی رہے ہیں۔

مسیح دنیا میں لوگوں کو مرکزی طور پر کوئی عقیدہ ، چرچpattern یا غیر زبانوں کا تجربہ دینے نہیں آئے تھے۔

وہ آئے تا کہ ہمیں گناہوں سے بچا سکیں۔ وہ آئے تا کہ گناہ کی جڑ، جو کہ ہماری "خودی" ہے اس کو اکھاڑ سکیں۔گناہ کی جڑ ہمارا اپنا فائدہ سوچنا اور اپنی مرضی کرنا ہے۔ جب تک ہم مسیح کو اس جڑ کو اکھاڑنے کا موقع نہیں دیں گے ہم صرف نام کے مسیحی رہے گے۔ اگرچہ شیطان ہمیں اس دھوکہ میں رکھ سکتا ہے کہ ہم اپنے چرچ یا doctrine کی وجہ سے دوسرے مسیحی لوگوں سے بہتر ہیں۔

شیطان کو یہ پروا نہیں کہ ہم کس doctrine یا چرچ سے تعلق رکھتے ہیں، نہ ہی یہ کہ غیر زبان بولتے ہیں یا نہیں جب تک ہم صرف اپنے لئے جیتے ہیں۔ کیونکہ یہ گناہ میں جینے کے برابر ہی ہے۔ مسیحیت آج ایسے مسیحی لوگوں سے بھری پڑی ہے جو صرف اپنی خودی میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس دھوکے میں ہیں کہ خدا اُن پر انکے روحانی تجربے، چرچ یا doctrine کی وجہ سے اُن سے ذیادہ محبت رکھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے شیطان کس قدر کامیاب ہو چکا ہے۔

یوحنا ۶۔۳۸ میں یسوع مسیح نے کہا کہ وہ آسمان سے نیچے اترا۔ تا کہ

۱۔ وہ اپنی مرضی [will] کا انکار کرے ، جو اُس نے اُس وقت پائی جب وہ آسمان سے انسان بن کے آیا۔

۲۔وہ انسان ہو تے ہوئے بھی اپنے باپ کی مر ضی پوری کرے ۔

تا کہ وہ ہمارے لئے ایک مثال بن سکے۔

اپنی ۳۳ سال کی زندگی میں مسیح یسوع نے زمین پر صرف اپنے باپ کی مر ضی پوری کی۔ اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی کرنے کا حکم دیا۔ وہ زمین پر گناہ کی جڑ جو کہ" انسان کا صرف اپنی مرضی کرنا ہے" ترک کرنے آ ئے تا کہ، ہمیں اس سے نجات دیں سکے۔

سائنس کے اعتبار سے ، انسان نے یہ غلطی کی کہ ہزاروں سال یہی سوچتا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ کیونکہ انسان کی نظر میں ایسا ہی تھا ، دن کے چوبیس گھنٹوں میں سورج چاند اور ستارے زمین کے ارد گرد ہی گھومتے دکھائی دیتے تھے۔پھر کوئی پانچ سو سال پہلے Copernicus جیسے آدمی نے دنیا کو بتانے کی جرت کی کہ یہ نطریہ بلکل غلط ہے کہ زمین نظام شمسی کا مرکز ہے۔ اُس نے بتایا کہ زمین سورج کے ارد گرد گھومتی ہے۔جب تک انسان کو درست مرکزنہیں معلوم تھا ، تمام سائنسی تقاضے غلط تھے۔ لیکن جب آدمی نے صحیح مرکز دریافت کیا تبھی سائنسی تقاضے بھی صحیح ہو گئے۔

انسان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ جب تک ہمارا مرکز ہماری خودی کے بجائے خداوند نہیں بن جاتا ہم غلطی پر رہتے ہیں۔ انجیل کے بارے میں ہماری سمجھ اور خدا کی کامل مرضی پوری کرنےمیں بھی ہم غلط ہوتے ہیں۔ Copernicus سے پہلے ۵۰۰۰ سال تک لوگ یہی مانتے رہے کہ وہ اپنی عقل سمجھ میں درست تھے، ہم بھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہم خدا کو سمجھنے میں درست ہیں لیکن ہم بھی ۱۰۰ فیصد غلط ہو سکتے ہیں۔

آج کل اچھے مسیحوں میں بھی ہم یہی دیکھتے ہیں کہ بائبل کو لے کر اُن سب کی عقل سمجھ مختلف ہے اور ہر کوئی قائل ہے کہ اسکی عقل سمجھ سب سے درست ہے۔ باقی سب دھوکے میں ہیں ۔ مگر ایسا کیونکر ہے؟ ایسا اس لئے ہے کیونکہ انکا مرکز [center] ہی غلط ہے۔

انسان کی تخلیق کا مرکز خدا کی مرضی پوری کرنا ہے نہ کہ اپنی ۔ اور جب ہمارا مرکز ہی غلط ہو گا تو ہمارا نجیل کا نظریعہ بھی غلط ہو گا۔ آج کل صرف دو طرح کا کلام تبلیغ کیا جا رہا ہے، ایک کا مرکز خدا ہے دوسرے کا مرکز انسان۔

انسانی مرکز کا کلام بتاتا ہے کہ خدا آپکی تمام دنیاوی ضرورتیں پوری کرے گا اور آپکی زندگی کو آسان بنائے گا۔ فردوس میں آپکی جگہ یقینی ہے۔ مسیح یسوع آپکے تمام گناہوں کو معاف کر دیں گے، تمام بیماریوں سے شفا دیں گے، دنیاوی تمام ضرورتیں پوری کریں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔

ایسے انسان کی زندگی کا مرکز اسکی اپنی ذات ہوتی ہے اور خدا اُسکے خادم کی مانند اسکے ارد گرد گھومتا ہے اسکی ہر دعا کا جواب دینے کے لئے ، بدلے میں اسکو صرف خدا پر بھروسہ رکھنا ہے اور ہر دنیاعی چیز کو مسیح یسوع کے نام پر claimکرنا ہے۔

یہ انجیل کے کلام کی جھوٹی اور باطل تعلیم ہے، کیونکہ اس میں توبہ کی تعلیم کہیں نہیں ہے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے، مسیح یسوع ، پولوس رسول اور پطرس نے بھی سب سے پہلے توبہ کی تعلیم دی۔ بدقسمتی سے توبہ کی تبلیغ آج کل کہیں نہیں ملتی۔ سب سے پہلی نہیں تو کم از کم اسےآخر درجے کی اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔

جبکہ دوسری جانب انجیل کی تعلیم، جسکا مرکز صرف خدا ہے، انسان کو توبہ کی طرف بلاتی ہے۔یہ بتاتی ہے کہ آپکی زندگی کا مرکز آپکی ذات نہیں بلکہ خدا کی ذات کو ہونا چاہیے۔ آپکو اپنی ماضی نہیں ، خدا کی مرضی پوری کرنی ہے۔ اپنے چُنے ہوئے راستے پر نہیں چلنا، بلکہ خدا کے چُنے ہوئے راستے کی پیروی کرنی ہے۔جسمانی خواہش، لالچ اور دنیاوی چیزوں سے پیار نہیں کرنا۔خدا کی طرف مڑنا ہے، پورے دل سے صرف خدا کو پیار کرنا ہے، اُسی کو اپنی زندگی کا مرکز بنابنا ہے۔ اور اُسی کی مرضی پوری کر نی ہے۔

مسیح یسوع کی صلیبی موت پر ایمان، آپکے گناہوں کی نجات صرف تبھی بن سکتی ہے جب آپ پورے دل سے توبہ کرتے ہیں۔تبھی خدا کا روح آپکے اندر آتا یے اور آپکو ہر روز اپنی خودی سے انکار کرنے کی قوت دیتا ہے تا کہ آپ مرکزی طور پہ خدا کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔یہی وہ کلام ہے جو مسیح اور تمام رسولوں کی تعلیم ہے۔

انجیل کی باطل تعلیم اپنی خودی کے دروازے کو وصیع کرتی ہے، تا کہ ہمیں اپنی مرضی کی پیروی کرنے کی کھلی اجاذت ہو۔ اور ہم اپنے مطلب کے لئے خدا کے ساتھ چلیں۔ لاکھوں لوگ ایسی تعلیم دینے والی meetings میں جاتے ہیں۔ اور اسی وصیع درواذے سے داخل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی راستہ زندگی تک لے جائے گا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تباہی کا راستہ ہے۔انہی meetings میں انجیل کی باطل تعلیم دینے والے evangelists بڑے ذور و شور سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کا یسوع کے ساتھ چلنے کا فیصلےلینے کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ سب ایک دھوکہ ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ وفاداری میں convert بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن سچائی سے ناواقف ہونے کے باعث یہی لوگ جہنم کی سزا کے دُگنے وارث ہونگے۔ [متی ۲۳۔۱۵]

انجیل کی اصل تعلیم چنانچہ دنیاوی زندگی کا دروازہ تنگ کرتی ہے۔ لیکن یہ اتنی حد تک ہی تنگ ہوتا ہے جتنا مسیح یسوع نے ٹھہرایا۔ انتہائی تنگ نہیں جتنا کہ کچھ انتہا پسند cultists نے کر دیا ہے۔ سچی تعلیم کی پیروی کرنے والے بے شک تھوڑے ہیں۔ اور نہ ہی سچی تعلیم دینے والے evangelists کے پاس اعلان کرنے کے لئے بڑی تعداد میں لوگوں کی جماعت ہوتی ہے۔ لیکن یہی سچی تعلیم لوگوں کو مسیح یسوع اور آسمان کی بادشاہی کے پاس لاتی ہے ۔

پَس خبردار رہو کہ تُم کِس طرح سُنتے ہو کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے مزید سمجھ اورتفہیم دِی جائے گی اور جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِی جائے گی جو وہ سمجھتا ہے کہ اُسکے پاس ہے۔ [لُوقا ۸۔۱۸]

جِس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے۔